Skip to main content

Posts

Viral Mania

          وائرل مینیا          (Viral Mania)                      سارہ عمر۔     نئے زمانے میں اگر ہر نوجوان کو کوئی خبط پایا جاتا ہے تو وہ وائرل ہونے کا مینیا(جنون) ہے۔بس کچھ بھی ہو جائے ہم کسی طرح وائرل ہو جائیں۔اب اس کے لیے الٹے پلٹے ہاتھ پاؤں مارنے پڑیں یا درخت سے الٹا لٹکنا پڑے،پہاڑ کے کنارے کھڑے ہو کر سیلفی لینی پڑے یا مگر مچھ کے منہ پہ چمی،ہمیں کوئی غرض نہیں۔بس ہم کوئی بھی طریقہ کارگر ثابت ہو اور ہم وائرل ہو جائیں۔ پہلے زمانے میں ”وائرل“ اور ”وائرس“ یہ دونوں الفاظ بہن بھائیوں کی طرح بیماری کے لیے ہی استعمال ہوتے تھے۔ڈاکٹر اکثر کہتے نظر آتے۔ ”آج کل نیا وائرس آیا ہے،ہر طرف وائرل پھیل گیا ہے احتیاط کیجئے۔“ مگر اب زمانہ بدل گیا ہے تو وائرس اور وائرل کی تعریف بھی بدل گئی ہے۔پہلے جسم میں اور کمپیوٹر میں وائرس آتا تھا اب وہ ادھر سے نکل کر لوگوں کے دماغوں میں خناس کی صورت بھر گیا ہے۔اب اس نئے وائرس کا نام ہے ”ٹک ٹاک“، ”سنیپ چیٹ“، ”انسٹا“ اور انہی سے ملتے جلتے وائرس جو نز...
Recent posts

انڈین کلچرل ویک، الریاض

انڈین کلچر ویک الریاض  رپورٹ سارہ عمر  گزشتہ کئی سالوں سے سعودی حکومت کی جانب سے موسم الریاض کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کے ذریعے نہ صرف مختلف ممالک کی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کیا جاتا ہے بلکہ دنیا بھر سے فنون لطیفہ سے وابستہ اداکار و فنکار اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔سال 2024 میں موسم الریاض کا آغاز 13 اکتوبر سے ہوا۔ہر سال کی طرح اس سال بھی الریاض سیزن کے تعاون سے حدیقة السعودی میں کلچرل ویک کا انعقاد کیا گیا ہے۔جس میں پاکستان ، بھارت، مصر،یمن،انڈونیشیا،بنگلہ دیش، سوڈان،فلپین کے ممالک شامل ہیں۔ اس سال کلچرل ویک میں ان ممالک کی تہذیب و ثقافت کو 49 دن تک فروغ دیا جائے گا۔اس سلسلے میں کلچرل پریڈ، میوزیکل کانسرٹ ،بچوں کے لیے خصوصی پلے ایریا، برڈ ایریا، ثقافتی رقص، کھانوں اور روایتی ملبوسات کے اسٹالز کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ایونٹ الریاض سیزن،وزارة الاعلام( منسٹری آف میڈیا) اور امانة منطقة الرياض( الریاض ریجن منسپلٹی) کے تعاون سے منعقد کیا گیا ہے۔اس سلسلے کی پہلی کڑی انڈین کلچرل ویک تھا جس میں بڑی تعداد میں انڈین فنکاروں نے شرکت کی اور اپنے فن کے جوہر دکھائے۔انڈیا سے آئے فنکاروں میں ہ...

انٹرویو مصنفہ سارہ عمر

 

خواب امیراں دے۔(طنز و مزاح)

 خواب امیراں دے تے کم فقیراں دے سارہ عمر  آج کل کے دور میں سب سے آسان کام خواب دیکھنا ہے۔یہ وہ کام ہے جو مہنگائی کے اس دور میں بھی مفت ہے اور مفت کا لفظ جہاں کہیں نظر آ جائے وہ ہماری قوم پہ کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں خوابوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔کچھ بھی سوچ لو کونسا کوئی بل آ رہا ہے۔خواب دیکھنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ سویا جائے کیونکہ خواب ہمیشہ نیند میں ہی آتے ہیں۔اسی باعث ہمارے نوجوان اکثر سوتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ سارے عظیم خواب تو نیند میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔کچھ ایسا ہی حال رشید سوالی کا بھی تھا۔نام تو اس کا رشید جمالی تھا مگر بچپن سے ہی اسے سوال پوچھنے کا اتنا شوق تھا کہ تنگ آ کر اس کا نام جمالی سے سوالی ہی ہو گیا۔رشید سوالی کا پسندیدہ کام سونا ہی تھا۔سو سو کر جب وہ زیادہ تھک جاتا تو تھوڑا اور سو کر اپنی تھکن اتار لیتا۔ نجانے نیند بھی کیوں اس پہ محبوبہ کی طرح عاشق تھی کہ تھوڑی سی خواہش پہ ڈھیروں نیند آنکھوں میں اتر آتی۔آنکھیں بند ہوتے ہی اس کے تخیلات کی دنیا جاگ اٹھتی۔کبھی وہ فائر جٹ طیارہ اڑاتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو زیر کر رہا ہوتا تو کہیں بلند و بالا پہاڑوں پر اس...

انٹرویو کالم نگار و صحافی حسنین جمال صاحب

 انٹرویو معروف کالم نگار و صحافی حسنین جمال             میزبان سارہ  عمر  ادب اور ادیب کا تعلق تو ہمیشہ سے ہی بہت گہرا ہے اور ان دونوں کے بیچ اس رشتے کو قائم رکھنے والی شے ”کتاب“ہے۔اردو ادب پہ بے شمار کتب لکھی گئیں مگر اس ادبی دنیا بہت کم نام ایسے ہیں، جنہوں نے آتے ہی اپنے قدم اس مضبوطی سے جما لیے کہ ان کے نام کی گونج چار سو سنائی دینے لگی۔ آج جس شخصیت سے آپ کی ملاقات ادب اور ادیب کی محفل میں کروائی جا رہی ہے،وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ان کا نام ہی کافی ہے۔شاید ہی نوجوان نسل کا کوئی قاری ایسا ہو جو ”داڑھی والا“ سے ناواقف ہو۔ ہماری آج کی مہمان شخصیت ہیں معروف کالم نگار،بلاگر، وی لاگر،تجزیہ و تبصرہ نگار حسنین جمال صاحب۔حسین جمال صاحب پشاور میں پیدا ہوئے اور پڑھائی کے مراحل ملتان میں طے کیے۔ ان کا نام دادا اور نانا ن مل کر رکھا، دادا حسن رکھنا چاہتے تھے، نانا کی خواہش تھی کہ حسین ہو، تو دونوں کو ملا کر حسنین رکھ دیا گیا۔ ان کے کالم ملک کے مشہور و معروف اخبارات و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ انڈیپنڈنٹ اردو کے...

امرتسر سے لاہور

 امرتسر سے لاہور  سارہ عمر اس داستان کا آغاز امرتسر کے ایک چھوٹے سے گاؤں سلطان پور سے ہوا تھا۔سہیل احمد نے جب سے آنکھ کھولی تھی برصغیر پاک و ہند میں ہندؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر دیکھا تھا۔کچھ علاقے تھے جہاں کچھ نہ کچھ فساد چلتے رہتے۔انگریزوں نے تو ہندؤں اور مسلمانوں کو اپنی طاقت سے زیر کر رکھا تھا۔جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا اسے اس ریاست کے حالات سمجھ آنے لگے تھے۔وہ مسلمان تھے، سو وہ دوہرے غلام تھے۔انگریزوں کے بھی اور ہندؤں کے بھی۔زمین، اناج پہ سارا قبصہ انگریزوں کا تھا۔حکومت ان کی تھی۔سو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کے تحت جو سرکشی کی کوشش کرتا،وہ بری طرح آمریت کے قدموں تلے کچلا جاتا۔ہندو تو اپنی چالاکی، چاپلوسی اور اچھی تعلیم کے توسط سے کچھ بہتر عہدے حاصل کر پائے تھے تبھی مسلمان دھیرے دھیرے اس سیاست اور تحریک کو سمجھنے لگے۔ الگ مملکت اور ریاست کا قیام وہ خواب تھا جو اقبال نے دیکھا تھا لیکن اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا جان جوکھوں کا کام تھا۔وہ چھوٹا سا تھا جب اپنے والد اور دادا کو مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کرتے دیکھتا۔وہ گھنٹوں مستقبل کے متعلق باتیں کرتے ...